تار
خیال آیا کہ ٹیلی گراف، جو کہ مورس کوڈ پر مبنی ہوتا تھا، کا اردو، عربی فارسی، یعنی مختصرا عربی رسم الخط متبادل ڈھونڈا جائے۔ انگریزوں نے آنے کے بعد یہ پورا تاروں کا سلسلہ ہندوستان میں بھی بچھایا تھا تو یہی ذہن میں تھا کہ یقینی طور پر اردو اور ہندی میں متبادل مورس کوڈ کا معیاری سانچہ بنایا گیا ہوگا۔ لیکن وہ تحقیق کرنے پر دستیاب ہو نہیں سکا (اردو کا)۔ شاید کسی لائبریری میں مل جائے یا پھر محکمہ ڈاک والوں کے پرانے ریکارڈ میں شاید کہیں دستیاب ہو سکے۔ جس کی مجھے بالکل بھی امید نہیں ہے۔ کسی خاکروب نے بےکار اور ردی سمجھ کر ٹھکانے لگا دیا ہوگا۔ کیونکہ اردو کے ساتھ ہم نے جو زیادتی کر رکھی ہے اس کے بعد ایسی توقعات رکھنا نری بےوقوفی ہے۔ اب تک تو اس پر سے پکوڑوں سموسوں کا تیل ختم ہو کر خاک کی نذر ہو گیا ہوگا۔
خیر، انیسویں صدی میں چونکہ ٹیلی گراف ایجاد ہو چکا تھا۔ اور مورس صاحب اپنی بیوی کی بیماری کی اطلاع کا خط دیر سے ملنے اور بیگم کی وفات کے باعث مورسی رمز ایجاد بلکہ وضع کر چکے تھے۔ اس لیے پھر میں نے عثمانی ترکوں پر تھوڑی سی تحقیق کی تو ان کا عربی رسم الخط میں تحریر کردہ رسالہ ہاتھ لگ گیا۔ جو کہ اب خود ترک لوگ بھی نہیں سمجھ سکتے۔ گو کہ اس رسالہ کے بھی چند اوراق ہی دستیاب ہو سکے۔ بہر کیف، اس کے بعد فارسی اور عربی کے بھی حروفِ مورس ہاتھ لگ گئے۔ نہیں ہاتھ لگا تو اردو کا قاعدۂ مورس ہاتھ نہیں لگا۔ گو کہ فارسی کے حروف استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن ٹ، ڈ اور ڑ وغیرہ کا کیا کیا جائے بھلا!؟ ان کو بھی ث، ذ اور ژ کی جگہ استعمال کیا جا سکتا ہے جہاں کسی اور معنی کا احتمال نہ رہے۔ ث، ذ اور ژ بھی اس باعث کیونکہ یہ استعمال میں کم آتے ہیں۔ اگر دوسری جانب سے آنے والا لفظ حدیث اور حدیٹ میں سے ایک ہوگا تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اصلا کیا کہا گیا ہے۔ اسی طرح دوسرے حروف بھی استعمال میں شاذ ہیں اور تفریق آسان ہے۔
زبان کے معاملہ میں ایران والوں پر رشک آتا ہے جس طرح انھوں نے اپنی زبان کو مربوط رکھا ہے۔ اردو کو ویسا رکھنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ اس پر ہر زبان کی چھاپ ہے اور ہر زبان کو اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ شاعری پڑھیے تو فارسی کا گماں ہوتا ہے، مذہبی مسائل و ادب پڑھیے تو عربی کا خیال آتا ہے اور عام بات چیت میں انگریزی الفاظ کی بھرمار ہوتی ہے۔ یہ عام بات چیت ہی کے باعث لوگوں کیلئے اجنبیت اصلی زبان اور الفاظ سے بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ بھی عرض سنتے چلیے کہ پچھلے دنوں اردو کی ۱۹۴۲ میں شائع ہونے والی ایک کتاب ہاتھ لگی، 'مخروطی تراشیں'، جس کا قریب ترین انگریزی معنی جیومیٹریکل فگرز کیا جا سکتا ہے۔ وہ مکمل طور پر اردو میں لکھی گئی ہے۔ آج کے اردو میں ریاضی و علم الہندسہ پڑھنے والوں کو بھی بمشکل ہی سمجھ میں آئے گی۔ المیہ یہ ہے کہ اب ایسی کتب شائع ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ انگریزی سے کوئی کد نہیں لیکن اس سے کسی بھی دوسری زبان کے بدلے ایسی محبت بھی نہیں کہ سر پر سوار کر لی جائے۔ خیر، یہ جملۂ معترضہ تھا!
بہر کیف، ٹیلی گراف کیلئے برصغیر میں لفظ 'تار' استعمال ہوتا تھا۔ آپ پرانی کہانیاں پڑھیں تو آپ کو یہ لفظ جا بہ جا ملے گا۔ 'شمع' ہو گیا۔ ایم اے راحت کے کچھ ناولز ہو گئے۔ ایسے ہی بہت سے۔ تو اس وقت جب پیغام رسانی کی جاتی تھی تو بمؤجب گرانی فی حرف بہت مہنگا پڑھتا تھا۔ اس وقت اکثر فقط اہم اور فوری ضرورت کی باتیں تار کے ذریعے ارسال کی جاتی تھیں۔ اور جواب بھی اگر عجلت میں چاہیے ہوتا تھا تو اس کے آخر میں 'ج س م ک' رقم کیا جاتا تھا۔ جس کا مطلب ہوتا تھا کہ 'جواب سے مطلع کیجئے'۔ وگرنہ باقی بات چیت خط و کتابت کے ذریعے ہی پایۂ تکمیل تک پہنچتی تھی۔
اس 'جسمک' کا ذکر محی الدین نواب نے اردو اور غالبا دنیا کے طویل ترین سلسلے 'دیوتا' کے شروع کے حصوں میں کیا ہے۔ ایسی ہی نہ جانے کتنی مختصر تراکیب زیرِ استعمال رہی ہوں گی جو وقت کی گرد تلے دب کر اور اردو کے وارثین کی غفلت کا شکار ہو کر امتدادِ زمانہ کے باعث تحلیل ہو گئیں۔
اسی سے ایک لطیف نکتہ یہ بھی نکلتا ہے کہ انگریزی کے IDK آئی ڈونٹ نو، TBH ٹو بی آنسٹ وغیرہ جیسے الفاظ کے وضع کیے جانے سے بہت پہلے اردو میں ایسی تخفیفی تراکیب مستعمل تھیں۔ بےشک وہ خود در آمدہ ترقی کا نتیجہ رہی ہوں لیکن، بہر حال، مستعمل تھیں! اس مضمون کا مقصد یہ تھا کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے بھی یہاں کافی سارے علوم تھا اور ان کے آنے کے بعد بھی کافی نئے علوم وضع ہوئے۔ جب ان کے آنے کے بعد والے علوم ضبطِ تاریخ میں نہیں لائے جا سکے تو اس سے پہلے والے تو جنگِ آزادی/غدر بقول فرنگی، اور پھر ہندی اردو زبانی چپقلش میں کہاں باقی بچ سکتے تھے!؟ جبکہ مقصود ہی غلام بنانا اور اپنی اصل سے دور کرنا تھا۔ انگریزوں نے اس وقت کی بہت سی اقوام کے ساتھ ایسا ہی کیا کہ ان سے ان کی شناخت مکمل طور پر چھین لی۔ ترکی کے عربی رسم الخط سے لے کر ہر چیز۔ ایسے ہی نیگروؤں کی ایسی یاد داشتیں باقی ہیں جہاں کوئی امریکہ میں بیٹھا ہوا غلام بتا رہا ہے کہ ظلم کے باعث کافی محو ہو چکا ہے لیکن وہ نہ صرف حافظ قرآن تھا بلکہ امام بھی۔ I Am Omar کے نام سے یہ واحد یاد داشت موجود ہے جو ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ ہمارے اس احساسِ کم تری کی وجہ یہی ہے کہ انگریز آ کر ہماری یاد داشتیں اپنے نام سے لکھتا ہے۔ ہماری قانون الطب کو کیننز آف میڈیسن کہتا ہے اور آج بھی یہ لفظ canon بہت زیادہ زیرِ استعمال ہے جس سے مراد بنیاد اور اصل لی جاتی ہے۔ ایسے ہی بہت سی مسلمانوں کی ایجادات پر شب خون مارا گیا ہے۔
آپ سائنسی ترقی کی کوئی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے، یونانیوں، مصریوں وغیرہ سے ہوتے ہوئے سیدھے یہ آ کر چودھویں صدی عیسوی میں ٹپکتے ہیں۔ بیچ میں سے مسلمانوں کا دور ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ہاں، جنگوں کا ذکر خوب چٹخارے لے کر کرتے ہیں۔ غالبا اس پر بھی ایک کتاب نظر سے گزری تھی جس میں مسلمانوں کی ایجادات کا ذکر تھا تاریخی حوالوں کے ساتھ جن پر انگریزوں نے اپنا نام چسپاں کیا تھا۔ لیکن حوالہ اب بالکل بھی یاد نہیں کہ کہاں نظر سے گزری تھی۔
خیر، آمدم بر سرِ مطلب، ٹھیک ہے کہ ہم پر ذلت کا وقت ہے، لیکن ہماری تاریخ اتنی بے کیف و بےلذت بھی نہیں ہے کہ احساسِ کم تری کا شکار ہوا جائے۔ بھلے آپ اردو پڑھیں، فارسی یا انگریزی، یہ احساس سمِ قاتل ہی رہے گا آپ کیلئے۔ سو، گریزاں رہیے!